جلو میں اپنے ہجوم بہار لیکے چلو
مدینے والے کا سینے میں پیار لیکے چلو
رسول پاک سے ہر اختیار لیکے چلو
دوائے گروشِ لیل و نہار لیکے چلو
تمہاری حاضری ہوگی در نبی پہ قبول
مگر دعائے غریب الدیار لیکے چلو
دل شکستہ کا پرساں نہیں کوئی اس کو
حضور شافع روز شمار لیکے چلو
رفوگری تو کریں گی ہوائیں طیب کی
تم اپنا دامن دل تار تار کے چلو
سکوں کی بھیک در مصطفیٰ پے ملتی ہے
مدینے اپنا دل بیقرار لیکے چلو
خلوص عشق ہی پہنچائے گا تمہیں طیبہ
یہی یقین یہی اعتبار لیکے چلو
ستم کی آندھیاں تم کو ستا نہیں سکتیں
دیار طیبہ کا سر پر غبار لیکے چلو
ہمیشہ دھوپ کی سختی میں کام آئے گا
سروں پہ دامنِ قطب المدار لیکے چلو
انہیں سے دھلتے ہیں طیبہ میں داغ عشق ادیب”
تم اپنی آنکھوں کے دو آبشار لیکے چلو