جن سے روشن ہے جہاں ان مہ واختر کو سلام
آئیے مل کے کریں آل پیمبر کو سلام
جن کے کردار سے مظلوم کو ملتا ہے سبق
ان حسین ابن علی صبر کے پیکر کو سلام
جس نے قربانی قاسم کی سفارش کی تھی
ایسے جذبے نثار ایسے برادر کو سلام
پیاس پہ جس کی تڑپتی ہی رہی موج فرات
اس وفاداریئ عباس دلاور کو سلام
گوش دل سے تھی سنی جس نے حسینی آواز
ہم کریں کیسے نہ اس حر کے مقدر کو سلام
جس کی معصوم جوانی نے کیا دیں کو جوان
جو جوانی میں لٹا اس علی اکبر کو سلام
ایک پل بھی نہ ملا جس کو سکوں بعد حسین
تا ابد کیجئے اس عابد مضطر کو سلام
خوش ہے جو عون ومحمد کو نچھاور کر کے
دو جہاں کرتے ہیں ان بچوں کی مادر کو سلام
جس کی مظلومی کی شاہد ہے زمین مقتل
کرتی ہے شام غریباں اسی دختر کو سلام
تیر کھا کر جو بیاباں میں کھلا مثل گلاب
اس تبسم پہ فدا اس علی اصغر کو سلام
جو مدینے میں تڑپتی رہی ہر اک کے لئے
آج کرتا ہے زمانہ اسی بے پر کو سلام
کربلا میں جو تھے انصارِ حسینی محضر
کیوں فرشتے نہ کریں ان کے مقدر کو سلام