جو دل کو احساس نارسی دے وہ کرب غم ہے خوشی نہیں ہے
فراق طیبہ میں جو بسر ہو وہ موت ہے زندگی نہیں ہے
پہنچ گئے ہیں جہاں پہ آقا مجالِ جبریل بھی نہیں ہے
یہ ہے مقام حبیب داور کمال پیغمبری نہیں ہے
دکھانا تاب و تواں کے جو ہر اٹھانا ہاتھوں پہ باب خیبر
ظہور اعجاز احمدی ہے شجاعت حیدری نہیں ہے
یہ دی ہے جبریل نے گواہی کہ ماہ سے لے کے تابہ ماہی
تمام خلقت ہے ہم نے دیکھی حضور کا مثل ہی نہیں ہے
یہ آفتاب حرا کے دم سے جہان میں روشنی ہے ورنہ
ہر ایک شئے کی بنا ہے ظلمت کسی میں تابندگی نہیں ہے
یہ بات ہے بندگی کی حاصل یہی رضائے خدا کی حامل
نہ جس میں عشق نبی ہو شامل وہ بندگی بندگی نہیں ہے
ادیب” کونین کو خدا نے انہیں کے ہے نور سے بنایا
نگاہ سرکار دو جہاں میں کوئی بھی شئے اجنبی نہیں ہے