جو راہ حق میں چھوڑ کے گھر اپنا چل پڑے
آیا جو ان کا نام تو آنسو نکل پڑے
تڑپے ہیں بوند بوند کو اس کے ہی نو نہال
وہ جسکی انگلیوں سے تھے چشمے ابل پڑے
شبیر سبط ساقی کوثر میں اے یزید
چاہیں تو کربلا میں سمندر ابل پڑے
جاگ اٹھا ہے تصوّر مظلوم کر بلا
جب بھی کسی کی پلکوں پہ آنسو مچل پڑے
آباد اک جہان ہے نسل حسین سے
اک شمع بجھ گئی تو دئیے کتنے جل پڑے
کربل میں گھر کا گھر ترا ویران ہو گیا
لیکن تری جبیں پہ نہ شبیر بل پڑے
شبیر جیسے بھائی کو دیکھا ہے زیر تیغ
زینب کو سوچئے تو ذرا کیسے کل پڑے
“مصباح ” جب مدد کیلئے شہ نے دی صدا
لبیک کہہ کے جھولے میں اصغر مچل پڑے