جو نورِ مصطفیٰ زینت دہ مکہ نہیں ہوتا
بتوں کا گھر تو ہوتا خانہ کعبہ نہیں ہوتا
جو ان کو بھیجنا تخلیق کا منشا نہیں ہوتا
سوال حضرت آدم کبھی پیدا نہیں ہوتا
نہ کیوں تکرار قرب خاص میں ہوا دن منی کی
کہ محبوب و محب کے درمیاں پردہ نہیں ہوتا
ہے صدقہ سرور عالم کے پائے ناز کا ورنہ
مرا ایمان ہے یثرب کبھی بطحی نہیں ہوتا
محمد مصطفی محبوب رب نور مجسم ہیں
دلیل نور یہ ہے نور کا سایہ نہیں ہوتا
بہار گلشن طیبہ کی رکھتا ہے طلب دل میں
جنون عشق احمد طالب صحرا نہیں ہوتا
کسی کے در پہ کشکول گدائی لیکے کیوں جاؤں
غلام مصطفیٰ منت کش دنیا نہیں ہوتا
ہمہ دم اپنے گرد و پیش اک جھرمٹ ہے جلووں کا
تری یادوں کے صدقے میں کبھی تنہا نہیں ہوتا
بجائے جوش نعت مصطفیٰ میں ہوش لازم ہے
گزر جانا حدوں سے اے ادیب ” اچھا نہیں ہوتا