جہاں میں نورِ رسالت مآب آتا ہے
مٹے گی ظلمت شب آفتاب آتا ہے
بشکل پیکر رحمت خدا کی جانب سے
ستم کشوں کی فغاں کا جواب آتا ہے
نئے اصول و ضوابط حیات کو دینے
جہاں میں صاحب ام الکتاب آتا ہے
اب اپنی کشتِ تمنا بھی لہلہائے گی
برسنے خشک زمیں پر سحاب آتا ہے
چلا یہ آس لئے ہوں کہ پوچھ لیں آقا
یہ کون ہے جو بحال خراب آتا ہے
میں کیسے پیش کروں اپنا نامہ اعمال
خطا شعار ہوں آقا حجاب آتا ہے
ادیب ” ختم رسل کا تھا معجزه ورنہ
جبلتوں میں کہاں انقلاب آتا ہے