حرص کے بندوں کو گنجینہ زرکافی ہے
ہم کو سرکار مدینہ کی نظر کافی ہے
دو نہ دربار رسالت میں زباں کو زحمت
ترجمانی کے لئے دیدہ تر کافی ہے
آتو جاتا ہے کوئی دم کے لئے دل کو قرار
ذکر طیبہ ترا اتنا ہی اثر کافی ہے
پھونک دینے کے لئے ہستئ خاشاک خودی
عشق احمد کا فقط ایک شہر کافی ہے
بخدا تذکرۂ رحمت عالم کے لئے
صبح تا شام نہ شب تاب سحر کافی ہے
یاد طیبہ میں گرے آنکھ سے جو دامن پر
نذر خالق کو وہی ایک گوہر کافی ہے
طالب خونِ جبیں ہیں تو مقامات بہت
سجدۂ شوق کو بس آپ کا در کافی ہے
یوں تو ادراک محمد نہیں آسان ادیب”
شہپر عشق کی پرواز مگر کافی ہے
ہم کو سرکار مدینہ کی نظر کافی ہے
دو نہ دربار رسالت میں زباں کو زحمت
ترجمانی کے لئے دیدہ تر کافی ہے
آتو جاتا ہے کوئی دم کے لئے دل کو قرار
ذکر طیبہ ترا اتنا ہی اثر کافی ہے
پھونک دینے کے لئے ہستئ خاشاک خودی
عشق احمد کا فقط ایک شہر کافی ہے
بخدا تذکرۂ رحمت عالم کے لئے
صبح تا شام نہ شب تاب سحر کافی ہے
یاد طیبہ میں گرے آنکھ سے جو دامن پر
نذر خالق کو وہی ایک گوہر کافی ہے
طالب خونِ جبیں ہیں تو مقامات بہت
سجدۂ شوق کو بس آپ کا در کافی ہے
یوں تو ادراک محمد نہیں آسان ادیب”
شہپر عشق کی پرواز مگر کافی ہے