حشر کے دن گیسوئے آقا کچھ ایسے لہرائے ہیں
امت عاصی پر رحمت کے جھوم کے بادل چھائے ہیں
کوئی نہ سمجھا وہ اپنے کو آخر کیوں گہنائے ہیں
آپ کی صورت دیکھ کے آقا شمس و قمر شرمائے ہیں
کیا گزری صدیق دل پر یہ بھی کبھی محسوس کرو
الیوم اکملت کہتے روح الامیں جب آئے ہیں
اب تو عطا ہو زہرا کے ان راج دلاروں کا صدقہ
کب سے اے کونین کے داتا ہم دامن پھیلائے ہیں
یوں ہی نہیں کہتا ہے قرآں انک لعلی خلق عظیم
ہر ہر موڑ پہ رحمت کل نے پیار کے دیپ جلائے ہیں
ہر لمحہ ہر آن تصور میں طیبہ ہی طیبہ ہے
کس درجہ طیبہ کے نظارے دل کو ہمارے بھائے ہیں
پانی پانی کر ڈالا ہے بیچ کے دریا کو فرماں
تیری غلامی کے جوہر فاروق نے جب دکھلائے ہیں
دور جہالت میں عورت کو حق ہی کہاں تھا جینے کا
رحمت عالم آپنے آکر یہ دستور مٹائے ہیں
رحمت عالم ایک نگاہ رحمت ہم مظلوموں پر
آپ کی امت پر پھر آقا ظلم کے بادل چھائے ہیں
تیری خطاؤں کی کوئی بھی حد ہی نہیں ” مصباح ” ولی
پھر بھی مجھے کو نین کے داتا اپنے گلے سے لگائے ہیں