خدا سے یہ توفیق مدحت ملی ہے
مجھے نعت گوئی کی دولت ملی ہے
رہے میرا عشق رسالت سلامت
مجھے اصل طرز عبادت ملی ہے
جگر گوشۂ آمنہ کی بدولت
ہمیں ماں کے قدموں میں جنت ملی ہے
کف پائے نور مجسم کے صدقے
فلک پرستاروں کو زینت ملی ہے
صداقت عدالت سخاوت شجاعت
نبی سے ملی ہے جو نعمت ملی ہے
جسے چومنے کو ملی ان کی چوکھٹ
چمکتی ہوئی اس کی قسمت ملی ہے
وہ دنیا ہو یا قبر ہو یا کہ محشر
ہر اک جانبی کی حکومت ملی ہے
یہ ہے نعت خیر الوری کی کرامت
زمانے میں مجھ کو جو شہرت ملی ہے
وہ دربار شاہ رسالت ہے لوگوں!
جہاں سے غریبوں کو عزت ملی ہے
انہیں نفرتوں کے اندھیروں کا کیا ڈر
جنہیں مصطفیٰ کی محبت ملی ہے
یوں شیدا ہے ” مصباح ” پر ساری دنیا
اسے پنجتن کی قرابت ملی ہے