خدا نے آپ کو شیریں مقال رکھا ہے
جواب تلخئ ماضی و حال رکھا ہے
اس آرزو میں کہ بس جائے آکے یاد حضور
ہر اک خیال کو دل سے نکال رکھا ہے
وہ صرف ذات محمد ہے جسکو خالق نے
ورائے وہم و گمان و خیال رکھا ہے
عطا تو کر دیا حق نے انہیں لباس بشر
ادا ادا سے مگر بے مثال رکھا ہے
یہ سنگ ریزے نہیں ہیں دیا ر طیبہ میں
قدم قدم پہ دل پائمال رکھا ہے
ہے سلسلہ ترا اے درد عشق طیبہ سے
اسی لئے مجھے سینے میں پال رکھا ہے
حضور گیسوئے رحمت جو ہیں بکھیرے ہوئے
یہ پردہ میرے گناہوں پر ڈال رکھا ہے
کہاں یہ فرش زمیں اور کہاں وہ عرشِ بریں
حضور نے مجھے حیرت میں ڈال رکھا ہے
چلے ادیب ” ہیں شہر نبی سے دیوانے
دلوں کو ہاتھوں سے لیکن سنبھال رکھا ہے
دلوں کو ہاتھوں سے لیکن سنبھال رکھا ہے