درخشاں نور خالق کا ستارا ہے مدینے میں
ہم ایسے بے سہاروں کا سہارا ہے مدینے میں
نہ جانے کس قیامت کا نظارہ ہے مدینے میں
گریبان نظر بھی پارہ پارہ ہے مدینے میں
کلیم اللہ جس کی جستجو میں طور تک پہنچے
وہی حسن الٰہی آشکارا ہے مدینے میں
الگ ہٹ فکرِ دنیا مجھ سے دامن چھوڑ دے میرا
کہ مجھ کو میرے آقا نے پکارا ہے مدینے میں
وہیں جا کر رکے گی کشتئ عمرِ رواں میری
مصیبت کے سمندر کا کنارا ہے مدینے میں
جہاں کے جبر سے مجبور ہو کر مضطرب رہ کر
یہاں ہم ہیں تو کیا دل تو ہمارا ہے مدینے میں
” ادیب” اس کو حیات عارضی کا ماحصل کہیے
وه لمحہ زندگی کا جو گزارا ہے مدینے میں
_______________
_________