دل جمال رخ احمد کا طلبگار تو ہے
تاب دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے
ہم نے مانا کہ نہیں جذب بلالی ہم میں
دل نواز اب بھی مگر الفت سرکار تو ہے
کچھ میسر نہیں ہم خاک نشینوں کو مگر
کملی والے ترا بخشا ہوا کردار تو ہے
راہ رو خود ہیں سیہ بخت اسے کیا کہئے
ورنہ روشن عمل قافلہ سالار تو ہے
کیا کروں بار ندامت سے نہ اٹھے جو نظر
سامنے جلوہ گر احمد مختار تو ہے
خیر اتنا تو کیا دل نے سلیقہ پیدا
عشق محبوب کا خالق سے طلبگار تو ہے
کم نہیں فخر یہ میرے دل وحشی کیلئے
حلقۂ گیسوئے احمد میں گرفتار تو ہے
ارض طیبہ سے بہت دور سہی دیوانہ
پھر بھی خاک در احمد کا پرستار تو ہے
آج بھی عالم غربت میں حضوری کی طلب
گوشے گوشے میں لئے اپنا دل زار تو ہے
دل کو ڈھارس ہے یہ میدانِ قیامت میں ادیب”
پشت پر رحمت عالم سا مددگار تو ہے