دل میں حسرت نہیں دیدار مدینہ کے سوا
سر میں سودہ نہیں سرکار مدینہ کے سوا
جس نے ہر گام پہ ہستی کے کئے ہیں سجدے
کون ہو سکتا ہے سرشار مدینہ کے سوا
ساری دنیا کی کوئی شے نہ سمائی اب تک
چشم دل میں در و دیوار مدینہ کے سوا
کون ہے حشر میں رکھ لے جو گنہگار کی لاج
رحمت سید ابرار مدینہ کے سوا
جو بنادے شب دیجور کو روز روشن
کس میں طاقت ہے یہ انوار مدینہ کے سوا
جس کو مسرور نہ کر پائے عطائے جنت
کون ہے اور پرستار مدینہ کے سوا
لیکے جاؤں بھی کہیں اور جو فریاد و فغاں
کب سنی جائیگی دربار مدینہ کے سوا
اس جہاں میں مرے ٹوٹے ہوئے دل کا سودا
ہو نہیں سکتا ہے بازارِ مدینہ کے سوا
عاشق طیبہ ہوں کیا لیکے کروں خلد ادیب”
چین آئے گانہ گلزار مدینہ کے سوا