دن ہے آقا کا رات آقا کی
ہے یہ سب کائنات آقا کی
جس پہ شیدا ہے خالق کونین
کیسی ہوگی وہ ذات آقا کی
انبیاء و رسل براتی ہیں
ہے انوکھی برات آقا کی
جھوٹ بھی سر جھکا کے کہتا ہے
سچ ہے ہر ایک بات آقا کی
ذہن حیراں ہے عقل ششدر ہے
لکھیں کیا کیا صفات آقا کی
ہو گئے دور رنج و غم سارے
جب پڑھی میں نے نعت آقا کی
کیا ہو غم مفلسی کا اے ” مصباح “
سامنے ہے حیات آقا کی