دھندلا سا نظر آتا سورج کا نگینہ ہے
اللہ رے کس درجہ پرنور مدینہ ہے
کیا مجھ کو لبھائے گی اے مشک تیری خوشبو
اب میرے خیالوں میں آقا کا پسینہ ہے
جس نے بھی اسے چوما اسکو ہے ملی عظمت
سرکار کی چوکھٹ ہے یا عرش کا زینہ ہے
ہم کو یہ بتاتا ہے فرمان الم نشرح
انوار کا گنجینہ سرکار کا سینہ ہے
پتوار بنایا ہے سرکار کی الفت کو
محفوظ بلاؤں سے اب میرا سفینہ ہے
قربان مری سانسیں اس ذات گرامی پر
جس نے مجھے جینے کا سکھلایا قرینہ ہے
تم دل کی صراحی میں حسنین کا غم بھرلو
پیالہ مئے کوثر کا محشر میں جو پینا ہے
قربان ہیں آنکھوں پر اسکی یہ مہ و انجم
قسمت میں لکھا جسکی دیدار مدینہ ہے
آپہونچے ہیں ہم اپنی منزل کے بہت نزدیک
مصباح ” نہ گھبراؤ کچھ دور مدینہ ہے