دیار طیبہ کے جانے والے رواں دواں جب نظر ہیں آئے
خیال وحشت نے کی جماہی جنوں کے جذبات تلملائے
چلا ہے جو زائر مدینہ تو ہم سے دامن ذرا بچائے
ہوائے احساس نارسی سے چراغ امید بجھ نہ جائے
سرور و مستی کی مجھ کو نعمت جومل گئی ہے تو چھن نہ جائے
میں عشق احمد میں کھو گیا ہوں خدا کرے اب نہ ہوش آئے
سبھی حضوری کی آرزو میں نہ جانے کب سے ہیں لو لگائے
ہے قابل رشک اس کی قسمت مدینے والا جسے بلائے
ہے تیرے ہاتھوں میں میرے مالک مری تمنا کی لاج رکھنا
مدینہ جب تک پہنچ نہ جاؤں مجھے پیام اجل نہ آئے
دیار انوار سرمدی کی تجلیوں سے یہ عرض کرنا
رہیں گے کب تک ہمارے دل پر ہجوم غم کے سیاہ سائے
تڑپتے جذبوں مچلتی آہوں نے ہے رسائی کی آس پائی
کہو کہ امید جھوم اٹھے کہو تمنا سے مسکرائے
دیار طیبہ کی آرزو میں ادیب ” ہم بھی تڑپ رہے ہیں
ہمیں بھی ہے حسرت حضوری کہو کہ اللہ راس لائے
خیال وحشت نے کی جماہی جنوں کے جذبات تلملائے
چلا ہے جو زائر مدینہ تو ہم سے دامن ذرا بچائے
ہوائے احساس نارسی سے چراغ امید بجھ نہ جائے
سرور و مستی کی مجھ کو نعمت جومل گئی ہے تو چھن نہ جائے
میں عشق احمد میں کھو گیا ہوں خدا کرے اب نہ ہوش آئے
سبھی حضوری کی آرزو میں نہ جانے کب سے ہیں لو لگائے
ہے قابل رشک اس کی قسمت مدینے والا جسے بلائے
ہے تیرے ہاتھوں میں میرے مالک مری تمنا کی لاج رکھنا
مدینہ جب تک پہنچ نہ جاؤں مجھے پیام اجل نہ آئے
دیار انوار سرمدی کی تجلیوں سے یہ عرض کرنا
رہیں گے کب تک ہمارے دل پر ہجوم غم کے سیاہ سائے
تڑپتے جذبوں مچلتی آہوں نے ہے رسائی کی آس پائی
کہو کہ امید جھوم اٹھے کہو تمنا سے مسکرائے
دیار طیبہ کی آرزو میں ادیب ” ہم بھی تڑپ رہے ہیں
ہمیں بھی ہے حسرت حضوری کہو کہ اللہ راس لائے