ربط ہو جائے جو پیدا بخدا طیبہ سے


ربط ہو جائے جو پیدا بخدا طیبہ سے

آج بھی ملتا ہے پیغام بقا طیبہ سے


نہ ہوئے پھر کبھی غربت پہ امارت کے ستم

مٹ گیا سلسلۂ جور و جفا طیبہ سے


امن عالم کا تصور بھی نہ تھا دنیا میں

گوش مخلوق نے یہ لفظ سنا طیبہ سے


اب نہیں پاس کی ظلمت کا ٹھکانہ دل میں

شمع امید نے پائی ہے ضیا طیبہ سے


تپش دل خلش درد یقین درمان

طالب عشق کو کیا کیا نہ ملاطیبہ سے


جسم سے جان بھی ایسے نہ نکلتی ہوگی

جیسے زائر کوئی ہوتا ہے جدا طیبہ سے


کوبکو ٹھوکریں کھانے کیلئے دنیا میں

کیوں پلٹ آئی تو اے باد صبا طیبہ سے


ہاتھ اٹھے تھے کہ یہ عرش سے آواز آئی

مانگنے والے تجھے ہو گا عطا طیبہ سے


اب بھلا ہوش میں کیوں آنے لگے دیوانے

آئی ہے گیسوئے احمد کی ہوا طیبہ سے


با ادب ہو کے بنے بوذر و سلمان و بلال

بے ادب جو تھے انھیں کچھ نہ ملاطیبہ سے


آئیں آفت زدہ دامان کرم میں آئیں

ائے ادیب ” آتی ہے پیہم یہ صدا طیبہ سے 

 _______________


_________
Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *