رحمت دو عالم جب اس جہاں میں آئے ہیں
نرم خو ہوئے کانٹے پھول مسکرائے ہیں
آسماں نے دنیا پر یہ جو ابر چھائے ہیں
ہم سے نور والے کی نعت سننے آئے ہیں
بس انہیں کا حصہ ہے ہر خوشی زمانے کی
دل میں عشق آقا کا درد جو بسائے ہیں
کیجیے کرم آقا هم شکستہ حالوں پر
عالم غریبی ہے اپنے بھی پرائے ہیں
عائشہ نے حجرے میں گمشدہ سوئی پائی
میرے مصطفیٰ جس دم آپ مسکرائے ہیں
زندگی مزین ہے جس سے تیری فرقت میں
ہم نے اپنی پلکوں پر وہ دیے جلائے ہیں
ہوش گم تھے آنکھیں نم دیدنی تھا وہ عالم
جب بلال حبشی کو آپ یاد آئے ہیں
آفتاب محشر کا خوف کیا مجھے مصباح “
ان کی پاک زلفوں کے تیرے سر پہ سائے ہیں