رس گھول رہا ہے اندازِ گفتار مدینے والے کا
سورج کی طرح سے روشن ہے کردار مدینے والے کا
ہے کتنا معظم سوچو تو غمخوار مدینے والے کا
دنیا کو شفا جب بانٹے ہے بیمار مدینے والے کا
صدیق کوئی فاروق کوئی کوئی ہے غنی اور کوئی علی
خالق نے سجایا ہے کیسے دربار مدینے والے کا
مہجور مدینہ خوش ہو کر کہتا ہے یہی وقت رخصت
سنتے ہیں لحد میں ہوتا ہے دیدار مدینے والے کا
امت کے لئے بخشش کی دعا ہے قبر میں بھی لب پر جاری
اللہ رے امت کی خاطر ایثار مدینے والے کا
کیا کرنی جہاں کی آرائش اب دل میں نہیں کوئی خواہش
کافی ہے دو عالم میں ہم کو بس پیار مدینے والے کا
مصباح ” جو اس کے منکر ہیں ہے ان کا ٹھکانا دوزخ میں
خالق نے لقب جب رکھا ہے مختار مدینے والے کا