رہے شاداب یا رب ہر کلی اس کے گلستاں کی
بچالی سر کٹا کر جس نے عظمت دین و ایماں کی
بہاتی ہیں یہ ساون کی گھٹائیں خون کے آنسو
کہانی سن کے اے زینب تری زلف پریشاں کی
ہے رونق بار تجھ پر گلستانِ ساقی کوثر
کوئی تقدیر دیکھے نینوا تیرے بیاباں کی
دکھایا ہے مدینہ کربلا سے تو نے اکبر کو
تری انگشت میں تاثیر تھی مہر سلیماں کی
ترے اس حوصلے پر بنت زہرہ جان و دل قرباں
روش جس نے بدلدی ظلم کے ہر ایک طوفاں کی
یہ کہتی تھی تڑپ کہ پائے عابد کی ہر اک بیڑی
یہی اک شمع ہے باقی رسالت کے شبستاں کی
میں جب بھی اس کو سنتا ہوں کلیجہ منھ کو آتا ہے
بہت پر درد ہے یہ داستاں شام غریباں کی
اسیری چوم کر ان کے قدم ” مصباح ” نازاں ہے
قدم رکھتے ہی جن کے شق ہوئی دیوار زنداں کی