زمین روتی ہے اور آسمان روتا ہے
غم حسین میں سارا جہان روتا ہے
ذرا یہ دیکھو دیکھو کہیں عابد حزیں تو نہیں
سنا کے اپنی کوئی داستان روتا ہے
عرب کہاں گئیں مہماں نوازیاں تیری
عرب میں رہ کے کہیں مہمان روتا ہے
کوئی نہیں ہے جو ڈھارس بندھائے اب اس کا
کہ ساتھ صغری کے خالی مکان روتا ہے
ستم کی دھوپ میں جلتی رہی ہے آل نبی
یہ سوچ سوچ کے ہر سائبان روتا ہے
نثار میں اے علمدار کربلا تجھ پر
کہ تیری یاد میں اب بھی نشان روتا ہے
براے بزر اے سبط نبی ہر اہلِ وفا
لئے ہتھیلی پہ اب اپنی جان روتا ہے
بیان کرتا ہے جب کربلا کے قصے کو
تڑپ تڑپ کے ہر اہلِ زبان روتا ہے
ہے ام سلمہ نے دیکھا یہ خواب میں ” مصباح “
کہ باغ اجڑ گیا اور باغبان روتا ہے