زمیں چمکنے لگی آسماں چمکنے لگا
حضور آئے تو سارا جہاں چمکنے لگا
جدھر سے گزرے ہو تم کہکشاں سی بنتی گئی
تمہارے پاؤں کا ہر اک نشاں چمکنے لگا
غم رسول کی سوزش کچھ اس طرح سے بڑھی
چراغ دل کا ہمارے دھواں چمکنے لگا
جب آگیا ہے تصور میں گنبد خضری
تو ذہن ہو گیا روشن گماں چمکنے لگا
یہ معجزہ ہے حضور آپ کی ہتھیلی کا
جو اتنا چہرۂ قطب جہاں چمکنے لگا
مکین گنبد خضری تمہارے جلووں سے
فقط مکاں ہی نہیں لامکاں چمکنے لگا
جو نعت کہنے کو بیٹھا ہوں میں کبھی ” مصباح “
نصیب بن کے مرا کہکشاں چمکنے لگا