سرور دو عالم کا لو وہ آستاں آیا
ہوش تاب نظّارہ وقت امتحاں آیا
راز عظمتِ انساں کھل گیا فرشتوں پر
زیر پائے آقا جب اوج لا مکاں آیا
وہ تو خالق کل ہے بھیجتا کہیں لیکن
شکر ہے کہ ہم ہی میں وجہ کن فکاں آیا
خلوتوں کی باتیں ہیں یہ تو بس خدا جانے
کس نے میزبانی کی کون مہماں آیا
زندگی کا مقصد ہے سیر وادئی بطحی
ایک کارواں گزرا ایک کارواں آیا
جب نظر مصیبت میں اٹھ گئی سوئے طیبہ
جوش پر وہیں ان کا لطف بیکراں آیا
رحمت الہی بھی جھوم اٹھی قیامت میں
جب ادیب” نعتوں کا لیکے ارمغان آیا