سرگوشیاں ہیں باہم محراب میں منبر میں
سرکار مدینہ ہیں صدیق کے پیکر میں
شهکار رسالت ہے ایثار کا وہ پیکر
اللہ نبی کو بس چھوڑ آیا ہو جو گھر میں
نا فہم نہ سمجھیں گے ہٹ دھرم نہ مانیں گے
کیا منصب فاروقی ہے چشم پیمبر میں
انوار کی دنیا میں وہ کیسا غنی ہوگا
لکھے ہوئے ہوں جس کے دونور مقدر میں
اعجاز دکھاتے ہیں جب ختم رسل اپنا
زور اسد اللہی آجاتا ہے حیدر میں
بچھڑے ہوئے مدت کے صدیق و عمر دونوں
آسودہ نظر آئے آغوش پیمبر میں
آقا کی غلامی کا انعام کوئی دیکھے
کونین کی نعمت ہے دامان ابوذر میں
سلمان و بلال آقا سرشار ہوئے جس سے
اک بوند اسی مئے کی دیدیجیے ساغر میں
یہ کس نے دہائی دی ساقئ مدینہ کی
اٹھی ہے سرِ محشر اک موج سی کوثر میں
مایوس ادیب ” اتنا ہونا ہے ترا بے جا
اصحاب نبی ہو نگے حامی ترے محشر میں