سنولا گیا ہے نور رخ آفتاب کا
اللہ رے جمال رسالت مآب کا
کرتا مرے نبی کی ہے مدحت سرائیاں
والله حرف حرف خدائی کتاب کا
خوشبو جو اسمیں پائی پسینے کی آپ کے
شیدائی بن گیا ہے زمانہ گلاب کا
صدیق پر ہوا جو نہیں زہر کا اثر
اعجاز تھا یہ تیرے دہن کے لعاب کا
پوشیدہ کوئی شئے نہیں انکی نگاہ سے
آقا کو ہے پتہ مرے حال خراب کا
روشن مری حیات کی راتیں ہوں اس طرح
عنوان ہوں نبی مرے ہر ایک خواب کا
ہجرت کی شب میں بستر آقا پہ محو خواب
دیکھے یہ حوصلہ تو کوئی بو تراب کا
دامن میں لگ نہ پایا کبھی داغ معصیت
اعجاز تھا یہ آپ کے دور شباب کا
ہاتھوں میں بس اسی کے ہے ” مصباح ” اپنی لاج
محبوب ہے جو مالک روز حساب کا