madaarimedia

شمع امید خاموش سی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے

 شمع امید خاموش سی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے

میں مسافر ہوں تاریک شب کا ڈھونڈتا ہوں سحر کا اجالا

دیکھئے کب کرن پھوٹتی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


جانے تقدیر میں کیا لکھا ہے ہر قدم اک نیا حادثہ ہے

جب مصیبت کوئی آپڑی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


یوں تو کوئی نہیں ہے سہارا آسرا ہے چراغ حلب کا

جس نے دنیا کو دی روشنی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


ہے انہیں پر مدار آخرت کا ہے انہیں کے سپرد اپنی دنیا

رہنمائی نہ کچھ رہبری ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


ہوگا کب میری شب کا سویرا میرے دل میں ہے غم کا بسیرا

یاس ہے عالم بے کسی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


ہر طرف نفسی نفسی کا عالم کوئی ہمدرد ہے اور نہ ہمدم

ہاں کچھ امید ہے تو یہی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


میرا بیڑا بھنور میں پھنسا ہے اور بدظن میرا نا خدا ہے

اک عجب موڑ پر زندگی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


زیست ہے یاس و آلام کا گھر سخت بے چین ہے قلب محضر
گردش وقت دشمن بنی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
  ——

—–

Leave a Comment

Related Post

Top Categories