شمع امید خاموش سی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
میں مسافر ہوں تاریک شب کا ڈھونڈتا ہوں سحر کا اجالا
دیکھئے کب کرن پھوٹتی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
جانے تقدیر میں کیا لکھا ہے ہر قدم اک نیا حادثہ ہے
جب مصیبت کوئی آپڑی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
یوں تو کوئی نہیں ہے سہارا آسرا ہے چراغ حلب کا
جس نے دنیا کو دی روشنی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
ہے انہیں پر مدار آخرت کا ہے انہیں کے سپرد اپنی دنیا
رہنمائی نہ کچھ رہبری ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
ہوگا کب میری شب کا سویرا میرے دل میں ہے غم کا بسیرا
یاس ہے عالم بے کسی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
ہر طرف نفسی نفسی کا عالم کوئی ہمدرد ہے اور نہ ہمدم
ہاں کچھ امید ہے تو یہی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
میرا بیڑا بھنور میں پھنسا ہے اور بدظن میرا نا خدا ہے
اک عجب موڑ پر زندگی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
زیست ہے یاس و آلام کا گھر سخت بے چین ہے قلب محضر
گردش وقت دشمن بنی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے