منقبت مدار العالمین کلام حسان الہند
علامہ معزز حسین ادیب مکنپوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ
علامہ معزز حسین ادیب مکنپوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ
عرس سرکار یہ کہتا ہوا سب سے آیا
اٹھو پیغام سحر ظلمت شب سے آیا
حکم سرکار سے اور مرضئ رب سے آیا
تھا یہی نور خراماں جو حلب سے آیا
بن گیا ہے وہی عنوان کتاب عرفاں
جو کوئی لفظ بھی باہر ترے لب سے آیا
وہی جلوے وہی خوشبو یہاں پائی اس نے
جو بھی دربار شہنشاہ عرب سے آیا
مطمئن ہو کے رہا وہ تہہ دامان مدار
جو بھی گھبرایا ہوا رنج و تعب سے آیا
شکل ارغونی و منصوری و طیفوری میں
نور آئینہ در آئینہ حلب سے آیا
اپنے آقا کے کرم پر نہ بھروسہ کرنا
عشق میں کفر ہے میں باز طلب سے آیا
اٹھو پیغام سحر ظلمت شب سے آیا
حکم سرکار سے اور مرضئ رب سے آیا
تھا یہی نور خراماں جو حلب سے آیا
بن گیا ہے وہی عنوان کتاب عرفاں
جو کوئی لفظ بھی باہر ترے لب سے آیا
وہی جلوے وہی خوشبو یہاں پائی اس نے
جو بھی دربار شہنشاہ عرب سے آیا
مطمئن ہو کے رہا وہ تہہ دامان مدار
جو بھی گھبرایا ہوا رنج و تعب سے آیا
شکل ارغونی و منصوری و طیفوری میں
نور آئینہ در آئینہ حلب سے آیا
اپنے آقا کے کرم پر نہ بھروسہ کرنا
عشق میں کفر ہے میں باز طلب سے آیا