غلام جس کو رسولِ زماں بناتے ہیں
زمیں بھی ہو تو اسے آسماں بناتے ہیں
پئے دیار نبی کارواں بناتے ہیں
ضعیف ارادوں کو بادل جواں بناتے ہیں
اگر وہ چاہیں تو دیں درد کو سکوں سے بدل
جو خارزاروں کو بھی گلستاں بناتے ہیں
ہے بنتا نقشہ مدینے کے ریگزاروں کا
جنوں میں ہم جو کوئی بھی نشاں بناتے ہیں
وہ ذرے جن کو نوازا تھا پائے آقا نے
زمیں پہ ایک نئی کہکشاں بناتے ہیں
جو پھول بن کے تھے بر سے لب رسالت سے
وہ جملے کتنی حسیں داستاں بناتے ہیں
زباں سے پڑھتے ہیں آقا جو سورہ کوثر
زبان دانوں کو بھی بے زباں بناتے ہیں
زمانہ جس کی بنی کو بگاڑ دیتا ہے
تو اس کو سرور کون و مکاں بناتے ہیں
سبھی ہیں حاضر دربار دیکھنا یہ ہے
حضور کس کو سگ آستاں بناتے ہیں
جہاں ادیب ” تھی آباد کفر کی بستی
حضور مرکز ایماں اسے بناتے ہیں