غمگین ہے ہر منظر یہ شام غریباں ہے
کہتی ہے فضا روکر یہ شام غریباں ہے
جس وقت چلے ان کو کیا سوچ کے وہ روئے
کیوں چوما تھا بابا نے کانوں کو سکینہ کے
اب راز کھلا جاکر یہ شام غریباں ہے
سب پردہ نشیں جن پر نازاں تھا سدا پردہ
سورج نے کبھی جن کا سایہ بھی نہیں دیکھا
ہیں آج وہ ننگے سر یہ شام غریباں ہے
دیکھو تو ذرا لوگو یہ ظلم کی تصویریں
بیمار کے پاؤں میں ڈالی گئیں زنجیریں
نیزے پہ ہے شہ کا سر یہ شام غریباں ہے
اشرار کے گھیرے میں ناموس رسالت ہے
بیمار کے کاندھوں پر اب بار امامت ہے
ہے کوئی نہیں یاور یہ شام غریباں ہے
ہر سمت اداسی ہے چھایا سناٹا ہے
ہر آنکھ میں آنسو ہیں ہر دل گھبرایا ہے
“مصباح ” کے ہے لب پر یہ شام غریباں ہے