لئے عجیب ہے منظر ادیب کی چادر
ہے نکہتوں کا سمندر ادیب کی چادر
رہیگی اب نہ جہالت کی تیرگی قائم
ہے نور علم کا ساگر ادیب کی چادر
نصیب اس کا چمک جائے کہکشاں کی طرح
اٹھا کے رکھ لے جو سر پر ادیب کی چادر
لبوں پہ اسکے نچھاور ہو نو بہار سخن
جو چومے کوئی سخنور ادیب کی چادر
ہیں اسمیں نسبت قطب المدار کے دھاگے
اویسیت کا ہے پیکر ادیب کی چادر
میں ناز کرتا ہوں مصباح اپنی قسمت پر
مجھے ہوئی ہے میسر ادیب کی چادر