لبریز ہو کے آنکھوں کی چھاگل مہک اٹھے
عشق نبی میں روؤں تو ہر پل مہک اٹھے
آئے نسیم لے کے جو خضرا کی نکہتیں
فطرت کا یہ ہرا بھرا آنچل مہک اٹھے
چھائیں گھٹائیں بن کے اگر گیسوئے نبی
چشم عروس دہر کا کاجل مہک اٹھے
خوشبو بکھیریں اپنی جو گلہائے پنجتن
ویران سونا سونا سا کربل مہک اٹھے
رکھ لے اٹھا کے سر پہ اگر تیری گرد راہ
والله آسمان پر بادل مہک اٹھے
پڑجائے جس پہ قطرۂ خون رسول پاک
کیوں وہ زمین بن کے نہ صندل مہک اٹھے
” مصباح ” جس پہ جلوہ فگن ہوں میرے نبی
کیوں بوریہ وہ بن کے مخمل مہک اٹھے