madaarimedia

مدینہ کی جانب گھٹائیں رواں ہیں

 مدینہ کی جانب گھٹائیں رواں ہیں

کہاں ہیں مری آرزوئیں کہاں ہیں


فرشتوں میں ہلچل ہے معراج کی شب

حضور آنے والے سر لامکاں ہیں


کتاب حیات دو عالم کو دیکھا

محمد ہی عنوان ہر داستاں ہیں


سجائی تو ہے بزم ذکرِ رسالت

نہ دیکھیں جو وہ محنتیں رائیگاں ہیں


انہیں کے تو سر پر ہے تاج شفاعت

وہی نازشِ جملہ پیغمبراں ہیں


کوئی انتہائے نوازش تو دیکھے

خدا میزباں ہے نبی میہماں ہیں


وہی تو بنے باعث وحئ اقراء

وہی تو کلام خدا کی زباں ہیں


بہت سخت ہے منزل درک احمد

کہ خاموش صدیق سے رتبہ داں ہیں


یہی کہہ کے خضرا نے آغوش کھولی

عمر پر یہ فرقت کے لمحے گراں ہیں


ہیں دو نور عثمان نے جب سے پائے

زمیں کہہ رہی ہے کہ ہم آسماں ہیں


گئے علم کے شہر میں ہم تو دیکھا

کہ ہر جا علی کے قدم کے نشاں ہیں


” ادیب” ان کو سمجھو نہ تم میری آنکھیں

کھلی عشق سرکار کی کھڑکیاں ہیں

 _______________


_________

Leave a Comment

Related Post

Top Categories