مدینے میں تن خاکی اگر بے جاں نہیں ہوتا
تو ہم پر اے اجل تیرا کوئی احسان نہیں ہوتا
ذرا لے تو چلے مشاطئ تقدیر طیبہ میں
سمجھنا تیرا مشکل گیسوئے پیچاں نہیں ہوتا
وہاں پر ناخدائی کام آتی ہے محمد کی
جہاں طوفاں سے بچنے کا کوئی امکاں نہیں ہوتا
جہاں نے آپ کو دیکھا تو جانا ذات خالق کو
نہ ہوتے آپ تو اللہ کا عرفاں نہیں ہوتا
ہمہ دم ہے تصور میں جمالِ گنبد خضری
ہمارے دل کو احساس غم ہجراں نہیں ہوتا
دکھا دے راہ طیبہ تو مری آوارہ پائی کو
کرم اتنا بھی تجھ سے گردش دوراں نہیں ہوتا
وہ دل بیکار ہے اہل محبت کی نگاہوں میں
چھپا جس دل میں ان کے عشق کا پیکاں نہیں ہوتا
کرم فرمائیاں ان کی سیاہ کاروں پہ ہیں ورنہ
کسی نا کارا شئے کا کوئی بھی خواہاں نہیں ہوتا
غریق بحر غم ہوں پھر بھی صدقے عشق احمد کے
اب احساس ہلاکت خیزئ طوفاں نہیں ہوتا
یہ درس مصطفیٰ ہے مت بہاؤ ظالمو! اس کو
لہو انسانیت کا اس قدر ارزاں نہیں ہوتا
ہم ایسا وہ بشر ہوتا تو سدرہ حد آخر تھی
بشر بن کر کبھی وہ عرش پر مہماں نہیں ہوتا
سلاسل ٹوٹ جاتے اور بکھر جاتیں سبھی کڑیاں
در سر کار کا جو سلسلہ جنباں نہیں ہوتا
دعائیں دے جمال سرور کونین کو ورنہ
حسیں اس درجہ تو اے عالمِ امکاں نہیں ہوتا
جہاں میں صرف در بار رسالت ہے جہاں جا کر
کسی کو شکوہ کوتاہی داماں نہیں ہوتا
ہنسی آتی ہے تیری جرت بیجا پہ اے ناداں
کہ نعت مصطفی کہنا ” ادیب” آساں نہیں ہوتا