مرکوز ترے روضۂ عالی پہ نظر ہے
دنیا کا مجھے ہوش نہ عقبی کی خبر ہے
کس طرح پھوٹیں مری پیشانی سے کرنیں
اک مہر جہاں تاب کی دہلیز پر سر ہے
اے کاش ٹھہر جائے یہیں گردش ہستی
اب مری جمال رخ آقا پہ نظر ہے
انوار خراماں کی طرح پھرتے ہیں ابدال
کیا جانئے یہ کس کی گلی کس کا نگر ہے
سورج کی طرف اٹھ نہیں سکتی ہیں نگاہیں
دیکھے رخ روشن ترا یہ کس کا جگر ہے
طوف در سر کار سے مٹ جاتی ہے گردش
کیسے نہ کہیں ہم یہ مرادوں کی سحر ہے
لے سر پہ ادب سے مرے سرکار کی چادر
منکر جو ترے دل میں قیامت کا خطر ہے
آزاد جو ہر فکر سے ہر غم سے ہے محضر
یہ نسبت سرکار کا بھر پور اثر ہے