مقابلے میں ذرا آفتاب لائے تو
مرے حضور کا کوئی جواب لائے تو
جو اپنی بے بصری سے بہت ہراساں ہے
وہ خاک پائے رسالت مآب لائے تو
دہائی میں کرم بے حساب کی دونگا
فرشتہ میرے گنہ کا حساب لائے تو
جو رونما ہوا سر کار دو جہاں کے طفیل
جہاں میں ایسا کوئی انقلاب لائے تو
پہنچ کے منزل قوسین میں نبی کی طرح
کوئی تجلئ وحدت کی تاب لائے تو
بدل بھی سکتا ہے پل بھر میں ظلمتوں کا مزاج
خدا سے کوئی وہ روشن کتاب لائے تو
سکون پائے مری تشنگی مگر ساقی
کہیں سے عشق نبی کی شراب لائے تو
مہک تو سکتی ہیں خوشیو سے آج بھی نسلیں
” ادیب ” ان کا پسینہ گلاب لائے تو