مہکی ہوئی فضا ہے دیار مدار میں
خوشبوئے مصطفی ہے دیار مدار میں
سیراب کر رہا ہے جو ہر تشنہ کام کو
دریا وہ بہہ رہا ہے دیار مدار میں
ہوتا گماں ہے طیبہ کی صبح حسین کا
وہ نور وہ ضیا ہے دیار مدار میں
منکر منافقت کا جو تجھ کو لگا ہے روگ
اس کی فقط دوا ہے دیار مدار میں آئے
آئے ہیں استواریئ نسبت کو اولیاء
میلہ سا اک لگا ہے دیار مدار میں
منکر کو بھی نگاہ بصیرت نصیب ہو
شہرت یہی دعا ہے دیار مدار میں