ورثہ میں ہم نے باپ سے پایا غم حسین
گھٹی میں ہم کو ماں نے پلایا غم حسین
لکھ دے تو ان کے حصہ میں کو نین کی خوشی
یا رب جنہوں نے ہم کو سکھایا غم حسین
پتھر کی سل ہے دل نہیں میری نگاہ میں
وہ دل کہ جس کو راس نہ آیا غم حسین
ایواں مسرتوں کے اسے ڈھونڈھنے لگے
جسنے بھی طاق دل میں سجایا غم حسین
دوزخ کی آگ اس کو نہ چھو پائے گی کبھی
سینے میں جس نے اپنے بسایا غم حسین
ہم کیوں غم حسین منائیں نہ ظالمو
اللہ کے نبی نے منایا غم حسین
اس کی چمک سے دور ہوئی ساری تیرگی
میری لحد میں کام ہے آیا غم حسین
رنج و الم کی دھوپ ہمیں کیا ستائیگی
سر پر کئے ہمارے ہے سایہ غم حسین
“مصباح ” یوں خوشی تیری تقدیر بن گئی
سوئے دلوں میں تو نے جگایا غم حسین