وطن میں رہ کے خود اپنا ہی گھر اچھا نہیں لگتا
بچھڑ کر تجھ سے اے طیبہ نگر اچھا نہیں لگتا
خدائے پاک جس کو احمد مختار کہتا ہے
کہو ا سکو تم اپنا سا بشر اچھا نہیں لگتا
تصور میں ہے جس کے ان کے نقش پا کی تابانی
وہ کہتا ہے مجھے حسن قمر اچھا نہیں لگتا
صحابہ کا نبی سے والہانہ عشق تو دیکھو
نہ آئیں جب تلک آقا نظر اچھا نہیں لگتا
وہ دل دل ہی نہیں لگتا نہ ہو جس میں تری الفت
ترا سودا نہ ہو جس میں وہ سر اچھا نہیں لگتا
تلاش رزق کی مجبوریاں ہیں سامنے ورنہ
مدینے کے سوا کوئی سفر اچھا نہیں لگتا
جو جا کر دیکھ لے شہر مدینہ کے حسیں منظر
اسے “مصباح ” پھر کوئی نگر اچھا نہیں لگتا