ولیوں کی ہے زبان پہ مدحت مدار کی
دیکھے تو کوئی شان ولایت مدار کی
اس دن سمجھ میں آئے گی عظمت مدار کی
محشر میں جب پڑے گی ضرورت مدار کی
دوزخ کا خوف ہوگا نہ احساس تشنگی
جب دیکھ لیں گے حشر میں صورت مدار کی
اہل ستم کی گرم نگاہی کا خوف کیا
ہم پر رہی جو چشم عنایت مدار کی
اس کو حضورئی در خیر الوری ملی
جس کو نصیب ہو گئی قربت مدار کی
تم بے بصر ہو منکرو کیا جان پاؤ گے
اہل نگاہ کرتے ہیں عظمت مدار کی
کوثر کے جام شربت دیدار مصطفیٰ
سب کو نصیب ہوگا بدولت مدار کی
جلتا رہا ہے جلتا رہے گا وہ تا ابد
پنہا ہے جس کے دل میں عداوت مدار کی
خالی ہیں یوں تو توشئہ عقبی سے ہم مگر
لے کر چلے ہیں دل میں محبت مدار کی
شکر خدا ہیں جن کے طلب گار اولیاء
محضر کو ہے نصیب وہ نسبت مدار کی