پلک پہ اشک سینے میں دل بیمار لایا ہوں
غریبی کا یہ نذرانہ پئے سرکار لایا ہوں
بنا کر جذبۂ دل کو لب فریاد کی زینت
سجا کر آنسؤوں سے حسرت دیدار لایا ہوں
ہزاروں کو چھڑایا تم نے ہے غم کی اذیت سے
غموں کا بوجھ دل پر میں بھی اے غمخوار لایا ہوں
در قطب جہاں سے لوٹنے والا یہ کہتا ہے
نگاہوں میں بسا کر جلوۂ سرکار لایا ہوں
تمہارے ہاتھ میں ہے لاج میری اس جسارت کی
کہ لب پر غم کا افسانہ سر دربار لایا ہوں
سنا ہے میں نے اے محضر کہ یہ سب کے مسیحا ہیں
چھپا کر اپنے سینے میں دل بیمار لایا ہوں