پوچھتے کیا ہو کیا چاہیے
عشق کے خیر الوریٰ چاہیے
بے سہارا ہوں میں یا نبی
آپ کا آسرا چا ہیے
بڑھ گئیں جہل کی ظلمتیں
نور شمع حرا چاہیے
سر میں اب کوئی سودا نہیں
بس در مصطفیٰ چاہیے
جس پہ اصحاب چلتے رہے
چلنا وہ راستہ چاہیے
مرضئ رب کی تحصیل کو
مرضئ مصطفیٰ چاہیے
سامنے ہے دیار نبی
اب مجھے اور کیا چاہیے
مجھ کو “مصباح ” ہر موڑ پر
بس نبی کی رضا چاہیے