آدمی آدمیت سے جانے لگے
بربریت کے جوہر دکھانے لگے
موت سے زندگی کو ڈرانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
دب گئی شور باطل سے حق کی صدا
چھا گئی ماہ کامل پہ کالی گھٹا
کفر کے فتنے پھر سر اٹھانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
ہو چکا پھر سے صامت کلام خدا
کھو چلے اپنے معنی ورا ماورا
جہل کے پھر چمن لہلہانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
توڑ کر شیشہ پھر عبد و معبود کا
چھوڑ کر اہلِ عالم صراط خدا
سر کو غیروں کے آگے جھکانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
نعمت بے بہا بن گئی خواجگی
جس کو دیکھو ہے وہ طالب بندگی
اہلِ زر مفلسوں کو ستانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
دیکھ کر ہر طرف نور چھایا ہوا
بخشش حق کا سیلاب آیا ہوا
دل کو ارمان خود اپنے بھانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
پھر نظر ایک ماہ جمیل آ گیا
آس کا پھر اشاره سادل پا گیا
ولولے اپنے پھر جان پانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
آسرے دل کے سارے جواں ہو گئے
اتنے ارما بڑھے کارواں ہو گئے
اور تقاضے طلب کے ستانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
یہ مہکتی فضا یہ مہکتی ہوا
یہ اشارے امیدوں کے صبر آزما
کیف و مستی کی دولت لٹانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
جب بھڑکنے لگا جوش دیوانگی
اے ادیب” اٹھ کے جذبات عشق نبی
اور بھی دل کو وحشی بنانے لگے
پھر محمد مجھے یاد آنے لگے
_______________
_________