پھیلا ہر سو ہے تر انور مدینے والے
ظلمتیں ہو گئیں کافور مدینے والے
تیرے قدموں کی بدولت ہے سلامت اب تک
وقت کی مانگ کا سندور مدینے والے
کیا حسیں ربط ہے یہ احمد مختار ہیں آپ
اور ہم بے کس و مجبور مدینے والے
اب خبر لیجئے بھنور میں ہے سفینہ میرا
اور ساحل ہے بہت دور مدینے والے
تو نے زخموں کے عوض دی ہے ہدایت کی دعا
ہے نرالا تیرا دستور مدینے والے
تم نے چومی تھی محبت سے ہتھیلی جس کی
کاش ہوتا میں وہ مزدور مدینے والے
رکھتا ہے قطب دو عالم سے اویسی نسبت
تم سے “مصباح ” نہیں دور مدینے والے