چشم صحابہ سے دیکھو تو کتنی اچھی لگتی ہے
مہر نبوت دلہن کے کمرے کی کنڈی لگتی ہے
اہل نظر کو نیل مگن طیبہ کی دھرتی لگتی ہے
اور اسکی ہر اک پگڈنڈی کا ہکشاں سی لگتی ہے
چاند چودھویں کا پھیلائے ہے اپنی نوری کرنیں
جابر کو لیکن آقا کی صورت اچھی لگتی ہے
وہ ایسا پردیس ہے جس میں اس درجہ ہے اپنا پن
شهر مدینہ پہنچ کے لوگو ہر شے اپنی لگتی ہے
جھوٹوں کی تو بات الگ ہے جھوٹے تو جھٹلائیں گے
سچوں کو اسرا کی کہانی بالکل سچی لگتی ہے
یہ جب نور کے پیکر کو اپنا جیسا بتلاتا ہے
مٹی کے پتلے کی فراست کتنی اوچھی لگتی ہے
امن میں ہے وہ ہر طوفاں سے جو ان سے منسوب ہوا
آپ کی آل پاک تو آقا نوح کی کشتی لگتی ہے
اس کے کانٹوں کی زینت پر ہیں دنیا کے پھول فدا
دیکھ کے طیبہ کے صحراء کو جنت سستی لگتی ہے
ہم اہل سنت کو ظالم بدعت گر بتلاتے ہیں
جو جیسا ہوتا ہے اس کو دنیا ویسی لگتی ہے
بے دیکھے تو اتنا فدا ہے دیکھ کے تیرا کیا ہوتا
اے ” مصباح ” تری نسبت تو ہم کو اویسی لگتی ہے