چڑھا ہو درد کا دریا تو دم مدار کہو
دکھائی دے نہ کنارا تو دم مدار کہو
دھاڑ شیر کی سنکر وہ کانپ جائیں گے
ہو دشمنوں کا جو نرغہ تو دم مدار کہو
اے زائر و در قطب المدار سے تمکو
ملے حسین کا صدقہ تو دم مدار کہو
وہ جس نے ہند کو ایماں کی دولتیں دی ہیں
پڑھوں میں اس کا قصیدہ تو دم مدار کہو
تمہیں تو ماہی مراتب نشان والے ہو
بجے مدار کا ڈنکا تو دم مدار کہو
مدار نے انھیں بے مثل تاج بخشا ہے
ملے ملنگ جو انکا تو دم مدار کہو
تمہارے گھر میں جلیں گے مسرتوں کے چراغ
ہو جب غموں کا اندھیرا تو دم مدار کہو
ہر ایک سنی کی پہچان ہے یہی نعرہ
جو سنیوں کا ہو جلسہ تو دم مدار کہو
میں اپنی روح سے مصباح کہتا رہتا ہوں
جو چھوٹے جسم کا پنجرہ تو دم مدار کہو