کؤو چلا ہے بگو بگیچہ کؤو چلا پردیس رے
ہم تو ائبے آقا دیکھن تمہر و نوری دیس رے
اپنا ہوش نہ جگ کی چنتا حالت ہے مستانہ
ہم کا یہ سنسار کہت ہے اب تمہر و دیوانہ
پریت ما تمہری سدھ بدھ کھوئی بدلا اپنا بھیس رے
کؤو چلا ہے بگو بگیچہ کؤو چلا پردیس رے
آسمان پہ کیا چمکت ہے بھید نہ جانے کوئے
نور ملن کو نور سے جائے رہیا جگمگ ہوئے
انبر سے جبریل ہیں لائے مالک کا سندیس رے
کؤو چلا ہے بگو بگیچہ کؤو چلا پردیس رے
ڈولے کی کب تک آشاؤں کی دکھ ساگر ما نیا
آس لگائے نین بچھائے ہم تاکت ہیں ڈگریا
کو د چلے جو طیبہ نگر تو دل پر لاگے تھیں رے
کو وچلا ہے بگو ا نچہ کو وچلا پردیس رے
بس ہے وہی صدیق و عمر کا اور عثمان وعلی کا
غوث کا خواجہ کا پیارا ہے داس ہے زندہ ولی کا
مانتا ہے دل سے سیدنا جو تمبر و آدیس رے
کو وچلا ہے بگوانگیچہ کو وچلا پر دلیس رے
نین ما گھومت ہے کب سے تمبری نیک دوریا
چل محضر تجھ کو ہیں بلاوت آقا طیبہ نگریا
جانے بیر یا کب طیبہ سے لائے یہ سندیس رے
کو وچلا ہے بگوانگیچہ کو وچلا پردیس رے