کاش ہستی کا وہی آخری لمحہ ہوتا
سامنے آنکھوں کے جب گنبد خضری ہوتا
لوٹتی گردش ایام جو پیچھے کی طرف
کیا تعجب ہے کہ نظارۂ آقا ہوتا
دانت بے دیکھے اویس قرنی نے توڑے
جانے کیا ہوتا اگر آنکھوں سے دیکھا ہوتا
نور کے ساتھ کثافت کا تصور ہی غلط
نور آقا نہ اگر ہوتے تو سایہ ہوتا
آپ کا حکم اگر ہوتا تو کنکریاں کیا
لب انگشتِ ابو جہل پہ کلمہ ہوتا
میرے آقا نے تری بات بنادی ورنہ
آج دنیا ترا بگڑا ہوا نقشہ ہوتا
ہم اگر مانتے آقا کے اصولِ زرّیں
اپنی تاریخ کا ہر باب سنہرا ہوتا
اب مسیحائی کو آتی نہیں طیبہ سے نسیم
اس سے اچھا تھا کہ بیمار نہ اچھا ہوتا
ان کا مداح جلے نار جہنم میں ادیب
کیسے یہ شافع محشر کو گوارا ہوتا