کتنا حیرتناک ہے منظر یہ کیا اندھیر ہے
تشنہ لب ہے وارث کو ثر یہ کیا اندھیر ہے
جن کا سایہ بھی فلک تک نے نہ دیکھا تھا کبھی
ان کے سر سے چھن گئی چادر یہ کیا اندھیر ہے
چومتے تھے جس کو اکثر رحمۃ للعالمیں
ظلم کی ہے انتہا اس پر یہ کیا اندھیر ہے
جسکے گھر کی کرتے دربانی تھے جبریل امیں
کربلا میں ہے وہی بے گھر یہ کیا اندھیر ہے
چوم کر جس کے قدم ملتی ہیں سرافرازیاں
نوکِ نیزہ پر ہے اس کا سر یہ کیا اندھیر ہے
آج ننھی سی سکینہ اپنے بابا جان کا
ڈھونڈھتی ہے لاشۂ بے سر یہ کیا اندھیر ہے
جسکو کہتا ہے جہاں مشکل کشا کا ورثہ دار
ہے وہی “مصباح” بے یاور یہ کیا اندھیر ہے