کتنا کرم ہے دیکھیے مجھ پر حضور کا
مشہور میں غلام ہوں گھر گھر حضور کا
محفوظ وہ رہے گا قیامت کی دھوپ سے
دامن رہے گا جس کے بھی سر پر حضور کا
اس بات کا کلام الہی گواہ ہے
ہوگا نہ ہو سکا کوئی ہمسر حضور کا
چشم تصورات کے قربان جائیے
روضہ ہے میرے سینے کے اندر حضور کا
آقا اگر بلائیں تو ہو حاضری نصیب
ہر چند یہ غلام ہے بے زر حضور کا
دو نیم ماہتاب اشارے میں افتاب
اور کرتے ورد کلمہ ہیں پتھر حضور کا
جب جا کے لامکاں سے آئے مکان میں
ہلتی تھی کنڈی گرم تھا بستر حضور کا
چومیں قدم نہ کیسے دو عالم کی رفعتیں
ادنی سا اک غلام ہے محضر حضور کا