کہتا ہے نور والے کو اپنا سا آدمی
کس درجہ گر گیا ہے یہ مٹی کا آدمی
رکھتا سدا جو اسوۂ سرکار پر نظر
واللہ پھر یہ آدمی بن جاتا آدمی
صدیق و عادل و غنی مولائے کائنات
ان کے کرم کے صدقے بنا کیا کیا آدمی
حیراں ہے دیکھ دیکھ کے جبریل سا ملک
عظمت سمجھ سکے تری کیا مجھ سا آدمی
ہوتی اگر نگاہ میں صلح حدیبیہ
ہر مسئلہ سلیقے سے سلجھاتا آدمی
معراج مصطفائی کا پہنے ہوئے لباس
قوسین کے مقام تلک پہونچا آدمی
رکھی ہیں سر پہ عرش نے بھی اسکی جوتیاں
اشرف ہے جس کے صدقے میں کہلا تا آدمی
ہوتا اگر نہ چہرۂ سرکار سامنے
کتنا اندھیری قبر میں گھبراتا آدمی
” مصباح ” ان پہ پڑھتا رہے انگنت درود
چاہے اگر نجات کا پروانہ آدمی